Sonntag, 17. Juli 2011

شناخت

شناخت

زندگی   کی  ہر  برہنہ   شاخ   پر   تحریر    ہیں

پھول چہروں پر جو ٹوٹے زرد لمحوں کے عذاب


’’پاکستان کامطلب کیا۔لاالٰہ الااللہ‘‘

’’پاکستان۔پلیدستان‘‘
’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘
’’ست سری اکال......‘‘
’’ حیّ علی الصّلوٰۃ......‘‘
’’بانگ نئیں دین دیاں گے۔ ساڈیاں رنّاں بانگیاں جاندیاں نیں‘‘
’’مسجد شہید گنج......‘‘
’’گوروگوبندسنگھ جی کے بچے......‘‘
’’ہندومسلم بھائی بھائی‘‘
جئے ہند۔جئے ہند‘‘
ایک زوردھماکہ ہوا۔زندگی کانپنے لگی۔ پاکستان آزاد ہوگیا۔ اس کے ذہن میں سارے منظر، ساری تاریخ اتھل پتھل ہوکررہ گئی۔ کوئی منظر ٹھیک طرح سے آنکھوں میں نہیں سمارہا۔ تاریخ کاکوئی حصہ ڈھنگ سے ذہن میں نہیں آرہا۔ چاروں طرف آگ اور خون کا کھیل تھا، ان کے قافلے پر حملہ کردیاگیاتھا۔ بچّے، بوڑھے، جوان، عورتیں سب گاجر مولی کی طرح کٹ رہے تھے۔ ۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں گہرا اندھیرا اُتر آیاتھامگراچانک اس اندھیرے میں روشنی کی ہلکی سی لکیرابھری۔ قریبی کھیتوں میں اسی روشنی کی لکیر کے سہارے وہ چھپتے چھپاتے ساتھ والے گاؤں جانکلی تھی مگر وہاں پہنچ کر اس کی آنکھوں میں اُتراہوااندھیرااور گھناہوگیاتھااور روشنی کی اس ہلکی لکیر نے بھی اس اندھیرے میں دم توڑدیاتھا:
’’کون ہو تم؟؟‘‘
’’جی ۔مم۔میں۔رشیدہ ہوں‘‘
’’ہا۔۔۔ہاہاہا۔۔۔‘‘شیطانی قہقہے اس طرح گونجے جیسے کسی ملک کو فتح کرنے کا آخری مرحلہ آگیاہو۔
’’مجھے میری ماں کے پاس پہنچادیں۔ خدا کے لئے!۔ مجھے میرے پاکستان بھجودایں۔‘‘وہ گڑگڑائی
’’سنو!تم اب رشیدہ نہیں،پرکاش کورہو‘‘
بے بسی کی حالت کے باوجود پتہ نہیں اس میں کہاں سے اتنی قوت آگئی۔ اس نے نہایت جرأت کے ساتھ کہا:
’’میں مسلمان ہوں او رمیرا نام رشیدہ ہے، رشیدہ!‘‘
تب سکھ لیڈر کے اشارے پر سات سکھوں نے اسے دبوچ لیااور اسے بازؤں،ٹانگوں اور بالوں سے پکڑ کر کسی انجانی سمت لے جانے لگے۔رستے میں سکھ لیڈرنے طنزاً کہا:
’ ’اب بتاؤ پاکستان کا مطلب کیاہے؟‘‘
’’لا اِلٰہ الا اللہ.....‘‘انہوں نے سختی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا مگرپھر بھی اس نے جیسے تیسے پورا کلمہ پڑ دیا‘‘..... محمد الرسول اللہ‘‘
وہ اسے ایک خالی مکان میں لے گئے اور وہاں جاکر ایک کمرے میں زور سے پٹخ دیا۔
’ ’ اسلام کے دشمنو!انسانیت کے دشمنو!ہماری اذانیں بند کرنے والے کتّو اور درندو!‘‘
رشیدہ کے منھ سے گالیوں کاطوفان بہہ نکلا۔ لیڈر سکھ نے باقی سکھوں کو باہر جانے کا اشارہ کیااور خود اس پر تھپڑوں کی بارش شروع کردی۔ تشدد کے باوجوداسے اصرارتھاکہ وہ رشیدہ ہے اور اسے اس کی ماں کے پاس یا پھر پاکستان پہنچایاجائے۔ تب لیڈرسکھ نے نہ صرف اس کی آبروریزی کی بلکہ اس عمل کے دوران اسے باورکراتارہاکہ وہ اب رشیدہ نہیں پرکاش کور ہے کیونکہ اب وہ مسلمان نہیں سکھ ہے۔
تکلیف اور اذّیت کے عالم میں ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ ’’جئے ہند‘‘ اور ’’ست سری اکال‘‘ کے سارے نعرے بھی اسے ریپ کرتے رہے اور اسے اس کا نیانام یادکراتے رہے۔وہ چیخی چلائی تو لیڈر سکھ نے دھمکی دی کہ اگر وہ درست نہ ہوئی تو وہ اپنے گروہ کے باقی سات جوانوں کو بھی اندرمدعوکرلے گا۔ تب وہ نہایت بے بسی کے ساتھ سسک پڑی اور درست ہوگئی اور اسے یقین آگیاکہ اس کا نام رشیدہ نہیں پرکاش کورہے او رپھر وہ سچ مچ پرکاش کوربن گئی۔ لیڈر سکھ سریندرسنگھ کی بیوی!
اس کے اندرکی رشیدہ کبھی اس سے گزرے ہوئے، بھوگے ہوئے اور سنے ہوئے واقعات کی کوئی بات کرتی تووہ اسے سختی سے ڈانٹ دیتی۔کسی نعرے کا مطلب پوچھتی تو اسے ٹوک دیتی۔ سکھوں کے دور میں مسلمانو ں کی اذانوں پر پابندی کی بات ہویا مغلیہ دور میں گوروگوبندسنگھ جی کے بچوں کے قتل کاواقعہ، پاکستان کا مطلب لا الٰہ الااللہ ہو یا پلید ستان۔وہ تو اپنا مطلب، اپنے معانی گم کر بیٹھی تھی۔ اس کے لئے اب ہر چیز بے معنی تھی۔ پھر اس نے اپنی بے معنی زندگی سے سمجھوتہ کرلیااوراس سمجھوتے نے بے معنویت سے ایک نئی معنویت پیداکردی۔ دو گبھرو بیٹے اور ایک خوبصورت بیٹی۔ لیکن وہ جب بھی اپنے ماحول سے مطمئن ہونے لگتی، اندر کی بے اطمینانی اور بڑھ جاتی۔ اطمینان او ربے اطمینانی کی اسی حالت میں زندگی کو جھیلتے، بھوگتے وہ بڑھاپے کی منزل تک آگئی۔
**
تب یکایک ایک اور دھماکہ ہوا۔زندگی کانپنے لگی۔
’’اندراگاندھی قتل ہوگئیں‘‘
انتہاپسند ہندؤں کو کھل کھیلنے کا موقعہ مل گیا۔ سکھوں کاقتلِ عام شروع ہوگیا۔ اس کے ذہن میں خوفناک وسوسے اور اندیشے سراٹھانے لگے، وہ اپنے کمزور اور بوڑھے ہاتھوں سے اپنی جوان بیٹی کو مضبوطی سے تھامنے لگی۔ فساد شدت اختیارکرنے لگا۔سریندرسنگھ سرکاری حفاظتی کیمپوں میں رہائش کا بندوبست کرنے گیاہواتھا۔ تب اس کے گھر کی دہلیزپر ہی اس کے دونوں جوان بیٹے قتل کردیئے گئے اور گھرکو آگ لگادی گئی۔ وہ اپنی جوان بیٹی کو ساتھ لے کر گھر کی پچھلی طرف سے دیوار پھاندگئی۔ ابھی وہ چند قدم ہی آگے گئی ہوں گی کہ پیچھے سے للکارسنائی دی:
’’ٹھہرو!۔۔۔۔کون ہو تم؟‘‘
’’جج....جی....‘‘وہ ہکلائی۔(37) سینتیس سال پہلے کا زمانہ پھر اس کے سامنے آگیا
’’کیانام ہے تمہارا؟‘‘
’’پرکاش کور۔۔۔۔نہیں۔۔۔ رشیدہ۔۔۔۔ ،جی ہاں رشیدہ‘‘
’’جھوٹ بولتی ہو۔تم مسلمان نہیں ہو،سکھ ہو‘‘
’’گوروکی سوگند۔بھگوان کی قسم۔میں رشیدہ ہوں او ریہ میری بیٹی ہے۔۔ چترا۔۔۔ نہیں اس کا نام چترانہیں..... اس کا نام.....‘‘
وہ پریشان ہوکرسوچنے لگی،سوچتی رہی، سوچتی رہی۔ اس کے سوچتے سوچتے اور دیکھتے دیکھتے سامنے کا منظربدل چکاتھا۔۔۔۔ چتراایک مکان کے کمرے میں مقید تھی اور وہ برآمدے میں بے بس بندھی کھڑی تھی۔ آٹھوں بدمعاش اس کی بیٹی کو باری باری ریپ کررہے تھے۔ چترا بے ہوش ہوچکی تھی مگر بلوائیوں کے انتقام کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی۔
اس کے ذہن میں سارے منظر، ساری تاریخ اتھل پتھل ہوکررہ گئی تھی۔ اس کی حالت ایسے انسان کی طرح تھی جس کے چاروں طرف الگ الگ موضوعات کی کئی فلمیں پوری آواز کے ساتھ چل رہی ہوں اور اسے کچھ بھی نہ سوجھ رہاہو۔
اسے محسوس ہواکہ اس کے سامنے چترانہیں وہ خود پڑی ہوئی ہے اور وحشیوں کا یہ غول اسے اس کا نام یادکرارہاہے۔ ہر آدمی اسے سریندرسنگھ نظرآتاہے۔
’’رشیدہ نہیں پرکاش کور۔۔۔۔۔۔۔پرکاش کور نہیں رشیدہ....‘‘
تب اسے معلوم ہوتاہے کہ اس کا کوئی نام نہیں اور کوئی مذہب نہیں۔
وہ صرف ایک لڑکی ہے۔ایک عورت ہے۔
یہی اس کا نام ہے۔
یہی اس کا مذہب ہے۔

***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen