Sonntag, 17. Juli 2011

کاکروچ

کاکروچ

اگلی نسلوں میں چلی جائے روانی اپنی
زندگی!    ختم  نہیں  ہوگی   کہانی  اپنی

’’ایٹمی جنگ کے متوقع خطرات کے پیش نظر میں نے ایٹمی جنگ کے بعد کے انسان کے حوالے سے ایک کہانی سوچی ہے۔‘‘

نصیر حبیب نے میری بات کو دلچسپی سے سنااورکہا:’’کہانی کا خیال سناؤ‘‘۔ لیکن اسی دوران مسعود شاہ بول اُٹھا۔ ’’یار!تم اب تک اسی موضوع پر پہلے ہی دو کہانیاں لکھ چکے ہو۔ اس موضوع کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟ لگتاہے ایٹمی جنگ کراکے ہی رہوگے‘‘۔ مسعود شاہ اپنے مزاج کے لاابالی پن کے باعث جو منہ میں آئے بول دیتاہے۔
’’کہانی کاخیال سناؤ!‘‘نصیر حبیب نے پھر پہلے لہجے میں کہا۔
’’چلو یار!اب کہانی سنابھی چکو‘‘مسعود شاہ نے بے زاری کے ساتھ جیسے نصیر حبیب کاساتھ دیا۔

’’اس کہانی کا آغاز ایٹمی جنگ کے بعد کے انسان سے ہوتاہے۔ میں اور ایک عورت اس جنگ میں معجزانہ طورپربچ گئے ہیں۔ چنانچہ ہم دونوں مل کر اس زمین پر آدم اور حوا کی نئی کہانی شروع کرتے ہیں۔ میں نہ صرف صاحبِ اولاد ہوگیاہوں بلکہ میری اولاد بھی صاحبِ اولاد ہوگئی ہے۔ تاہم کرۂ ارض پر ہماری حالت ایسے ہی ہے جیسے انسان ابھی ابھی غار کے زمانے سے نکل کر جنگل میں جھونپڑے بنارہاہے۔ میرے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں نہیں جانتے کہ انسان کیسی عظیم تر ترقیات کے دور سے نکل کر جنگل کے دور میں آگیاہے‘‘
میں دیکھتاہوں کہ نصیر حبیب ہی نہیں مسعودشاہ بھی میری کہانی کو سنجیدگی سے سن رہاہے۔
’’ایک دن میرے پوتوں، پوتیوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں انہیں عام معمول سے ہٹ کرکوئی انوکھی سی کہانی سناؤں۔ تب میں انہیں اپنے ترقی یافتہ دور کے حالات بتانے لگتاہوں۔
’میرے پیارے بچو! یہ کہانی نہیں حقیقت ہے۔ اس کے باوجود کہانی سے زیادہ دلچسپ اور المناک ہے۔ آج سے چند عشرے پہلے سارے دنیا ہم جیسے انسانوں سے بھری ہوئی تھی۔ انسان کو دنیا میں ہر طرح کی نعمتیں میسر تھیں۔ سفر پر جاناہوتو کارسے لے کر ہوائی جہازتک کی سہولتیں موجود تھیں۔‘
’دادااَبو!یہ کاراور ہوائی جہاز کیاہوتے تھے؟‘
میری پوتی نے سوال کیاتو مجھے وضاحت کرنا پڑی کہ کار ایک سواری تھی جس میں چار پانچ آدمی بیٹھ جاتے۔ اسے صرف ہینڈل کرناہوتاتھاوہ خود ہی سواریو ں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی۔ یہاں سے دریا کے کنارے تک کاجوفاصلہ ہم آدھے دن میں طے کرتے ہیں۔ کارہمیں پل بھر میں وہاں پہنچادیتی تھی۔بچوں کے چہروں سے تجسس اور دلچسپی ظاہر ہورہی تھی۔
’اور دادااَبو۔۔۔ہوائی جہاز؟‘۔میرے پوتے نے پوچھا۔
’ہوائی جہاز بہت بڑاہوتاتھا۔ اس میں کئی سوافراد بیٹھ جاتے تھے تو وہ انہیں اتنی دور تک پہنچادیتاجتنی دور تم اپنی ساری زندگی میں بھی نہیں جاسکوگے۔ اور ہاں ۔ ۔ہوائی جہاز پرندوں کی طرح اُڑکر جاتاتھا۔دریاؤں اور پہاڑوں کے بھی اوپر سے گزرجاتاتھا۔‘
میری بات سن کر بچے کھلکھلاکر ہنس پڑتے ہیں۔
’دادااَبواور کیا ہوتاتھاآپ کے زمانے میں؟‘اس بار میرے پوتے کے لہجے میں شرارت کی چمک تھی۔
میں نے ایک لمباسانس لیااور پھر بتانے لگا’اُس زمانے میں ریڈیو،ٹیلی ویژن، ٹیلی فون، فیکس،کمپیوٹر....‘
’دادا اَبو! یہ ریڈیو کیا ہوتا تھا؟‘
’یہ ایک چھوٹاسابکس ہوتاتھا۔ اس کے بٹن گھمانے سے کبھی گیت سنائی دیتے۔ کبھی ساری دنیا کی خبریں، کبھی لوگوں کی گفتگو۔‘
’اور ٹیلی ویژن ؟‘
’ریڈیووالی ساری چیزیں ٹیلی ویژن پر سنائی بھی دیتی تھیں اور دکھائی بھی دیتی تھی۔ یعنی اگر کوئی آواز آرہی ہے تو اس کا چہرہ بھی دکھائی دیتااور وہ شخص ہماری طرح ہی چلتاپھرتااوربولتانظرآتاتھا۔‘
ننھے منے معصوم بچوں نے میری بات سن کر اتنے زور سے قہقہے لگائے کہ میں خفیف سا ہوگیا۔ وہ مجھ سے پہلے زمانے کی اور دلچسپ باتیں سنناچاہتے ہیں مگر میں کہتاہوں۔ پیارے بچو!میں اب تھک گیاہوں اس لیے باقی باتیں کل سناؤں گا۔
پھر میں ان کے جھونپڑے سے نکل آتاہوں۔جھونپڑے سے باہر آکر یونہی خیال آیا اور میں رُک کر بچوں کی آوازیں سننے لگا۔ میرا ایک پوتاکہہ رہاتھا: ’دادااَبوزیادہ بوڑھے ہوگئے ہیں اس لئے اچھی اچھی کہانیوں کو اپنے زمانے کے واقعات سمجھنے لگ گئے ہیں۔‘
میرے باقی سارے پوتے پوتیاں اس کے تبصرے کی تائید میں ہنس رہے تھے‘‘
 
میں نے کہانی ختم کی تو مسعود شاہ نے زوردارقہقہ لگایا۔ ’’یار!اگر جنگ میں صرف تم اور ایک عورت ہی بچتے ہوتو بچوں کی شادیاں کیسے کیں؟کیا پھر بہن بھائیوں کی شادیاں کرادیں؟‘‘
’’اگر آپ کو اس میں الجھن محسوس ہوتی ہے تو جنگل کے قریب دریاکے کنارے پر ایک اور مرد، عورت بھی جنگ سے بچادیتاہوں‘‘میں نے وضاحت کی۔
’’یہ چھوٹی چھوٹی باتیں تو کہانی لکھتے وقت خود اپنی راہ بناتی جائیں گی۔ میں ایک اور اہم مسئلے کی طرف توجہ دلاناچاہتاہوں‘‘ نصیر حبیب نے سنجیدگی سے کہا’’ایٹمی جنگ کے بعد سطح زمین پر کسی انسان کازندہ بچ رہناسائنسی طورپرممکن نہیں۔ اس لئے بچ رہنے والوں کو آپ کس بنیاد پر بچارہے ہیں؟‘‘
’’میری کہانی بنیادی طورپرفکشن ہے، اسے آپ سائنسی مضمون تونہ سمجھیں‘‘ میں نے نصیر حبیب کے اعتراض کے جواب میں کہا۔
’’میں تو فکشن کی اہمیت کامعترف ہوں‘‘نصیر حبیب نے متانت سے کہا۔ ’’بلکہ میرے نزدیک سائنس کی بنیاد بھی فکشن پر ہے۔ ہرنیا سائنسی انکشاف پہلے فکشن ہوتاہے۔ اس لئے میں نے جو نکتہ اٹھایاہے پہلے مجھے اس کی تفصیل بیان کرلینے دیں۔‘‘
میں تو نصیر حبیب کی تفصیل سننے کے لئے ہمہ تن گوش تھاہی۔ مسعود شاہ بھی خلاف توقع سنجیدہ ہوگیاتھا۔
’’سطح زمین پر ایٹمی جنگ کی صورت میں کوئی ذی روح مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی۔ صرف وہ مخلوق زندہ رہ سکتی ہے جس میں نیوکلیر پوائزن ہو۔ کیونکہ صرف یہی ایلیمنٹ ہر قسم کی تابکاری کو جذب کرسکتاہے۔ مثلاً لیڈہر قسم کی تابکاری کو جذب کرسکتاہے لیکن اگر انسانی خون میں لیڈشامل ہوتوپھر اسے ہلاک کرنے کے لئے ایٹمی جنگ کی بھی ضرورت نہیں، انسان ویسے ہی مرجائے گا‘‘
’’آپ کا مقصد یہ ہے چونکہ انسانی خون شریانوں میں ہوتاہے اس لیے اس کی موت واقع ہوجائے گی لیکن بعض ذی روح ایسے ہیں کہ ان کے ہاں شریانوں والا سسٹم نہیں ہے مثلاً مکھی کے جسم میں خون کی الگ تھیلی ہوتی ہے، اس لئے اگر اس کے جسم میں نیوکلیر پوائزن ہو تو اس کی موت واقع نہیں ہوگی‘‘
میری بات سن کر نصیر حبیب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ’’آپ کی کہانی اب بنے گی۔ مکھی کی جگہ کاکروچ لے لیں۔ فرض کرلیں کہ کاکروچ کے وجود میں بھی ایسا سسٹم ہے کہ تابکاری اثرات اسے نقصان نہیں پہنچاسکتے بلکہ الٹا اس کی گروتھ کرتے ہیں۔ لہٰذا ایٹمی جنگ کے بعد سارے ذی روح مرجائیں گے سوائے کاکروچ کے۔ اور تابکاری اثرات سے جب ان کی گروتھ ہوگی تو آنے والے زمانے میں اس زمین کے حکمران اور مالک یہی کاکروچ ہوں گے جو انسانی قد کے برابرہوجائیں گے‘‘۔
نصیر حبیب کی کہانی سن کر مسعود شاہ نے زوردار قہقہہ لگایا۔
’’ٹھہریں!‘‘میں نے ہاتھ اٹھاکرسنجیدگی سے کہا’’کہانی تو ہزاروں سال پہلے بن چکی ہے‘‘
نصیر حبیب نے مجھے الجھے ہوئے انداز سے دیکھا۔
’’دوستو!ایسا بھی تو ہوسکتاہے کہ ہم آج کے انسان ہزاروں سال پہلے کے کسی زمانے کے کاکروچ ہوں‘‘
’’کیا؟‘‘نصیر حبیب اور مسعود شاہ کی آوازوں میں گھبراہٹ تھی اورپھر وہ اس طرح اپنے آپ کو دیکھنے لگے جیسے واقعی کسی پرانے زمانے کے کاکروچ ہوں۔

***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen