Sonntag, 17. Juli 2011

آپ بیتی

آپ بیتی

اپنی کچھ نیکیاں لکھنے کے لئے بھی حیدرؔ
اپنے  ناکردہ  گناہوں  سے  سیاہی   مانگوں

 
(۱)

اس دن ماں نے مجھے معمول کے مطابق فجر کے وقت جگایا تھا مگر اس کالہجہ معمول کے مطابق نہ تھا۔ میں نے تاروں کی روشنی میں ماں کی آنکھوں میں تشویش جھلکتی دیکھی۔ ماں مشرق کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں گہری سرخی پھیلی ہوئی تھی۔ لگتا تھا آسمان پر شفق پھوٹنے کی بجائے خون پھوٹ بہاہے۔
اس دن سارا شہر خوفزدہ تھالوگوں کی نظریں اخبارات کی خبروں پر جم کر رہ گئیں۔
*ٹریفک کے حادثے میں بیس افراد ہلاک اور تیس شدید زخمی۔
*ملزمان پندرہ روز تک مجھے مسلسل بے آبرو کرتے رہے۔ برآمد کی جانے والی مغویہ کا بیان۔
*ایک نوجوان نے محبت میں ناکام ہو کر محبوبہ کو ہلاک کردیا۔
*سگے باپ، بھائی اور بھابھی کو قتل کردیا، خانگی جھگڑے کا شاخسانہ۔
ساری خبریں معمول کے مطابق تھیں مگر اس دن یہ ساری خبریں غیر معمولی لگ رہی تھیں۔ لگتا تھا ہر خبر کا آسمان کی سرخی سے کوئی تعلق بنتاہے۔
اس دن شہر میں بہت سی بھڑیں آگئی تھیں۔ پہلے شہر میں جس طرح مکھیاں بھنبھناتی تھیں اب ویسے ہی بھڑیں اڑتی پھرتی تھیں۔
ا س دن شدید گرمی کے باعث میں نے قمیص اتاررکھی تھی اور بنیان پہنے اپنی کرسی پر بیٹھااس دن کی ڈاک دیکھ رہاتھا۔ ڈاک میں دیگر خطوط کے ساتھ میری ایک بہت ہی اچھی دوست کا خط بھی تھا۔ جونہی میں اس کا خط پڑھنے لگا مجھے اپنے سینے پر شدید جلن محسوس ہوئی۔ایک بھڑ نے میرے سینے پر ڈنک مارا تھا۔ میں تکلیف کے عالم میں ماں کے پاس آیاتو اس نے لوہے کی کسی چیز کو ڈنک والی جگہ پر رگڑتے ہوئے دم کیا اور میری تکلیف بڑی حد تک دور ہوگئی پتہ نہیں اس دم کی وجہ سے یا ماں کی وجہ سے یا شاید دونوں کی وجہ سے!
اس دن شام کو غروب آفتاب کے بعد آسمان کی طرف پھر ویسی ہی گہری سرخی چھاگئی اور دن بھر کے پریشان لوگ اور زیادہ خوف زدہ ہوگئے ۔یہ سارے واقعات صرف اس دن ہی غیر معمولی لگے۔طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب کے بعد اب بھی آسمان گہرا سرخ ہوتا ہے۔ بھڑیں اب بھی شہر میں دندناتی پھرتی ہیں۔ قتل، اغوا، ایکسیڈنٹ اور آبرو ریزی کے واقعات اب بھی ہوتے ہیں مگر لوگ اب پہلے کی طرح پریشان نہیں ہوتے۔ انہوں نے آسمان کی سرخی کو بھی معمولات زندگی میں شمار کرلیاہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میری ماں کی آنکھوں میں ابھی تک تشویش جھلک رہی ہے۔ وہ اپنی تشویش سے آگاہ کرکے مجھے پریشان نہیں کرنا چاہتی لیکن میں نے راتوں کو دیکھا ہے کہ وہ کئی دفعہ اٹھ اٹھ کر، آسمانی صحیفوں کی دعائیں پڑھ پڑھ کر ،مجھے سوتا جان کر مجھ پر دم کرتی رہتی ہے۔ ایک دو دفعہ میں نے سناوہ میرے باپ سے آہستہ آواز میں اپنی تشویش کا اظہار کررہی تھی اور میرے باپ نے آسمان کی سرخی کو خدا کی ناراضگی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا پر عنقریب بہت بڑی تباہی آنے والی ہے۔ اپنی ماں اور باپ کی اس تشویش کو دیکھ کر مجھے بھی کبھی کبھی تشویش ہونے لگتی ہے۔
جب پہلے پہل لوگوں نے خوف کا اظہار کیاتھاتب و ہ بھی اس آسمانی تبدیلی کو اجتماعی زاویے سے دیکھ رہے تھے اور میرے ماں باپ بھی اسے کسی اجتماعی تباہی کا پیش خیمہ سمجھ رہے ہیں۔ لیکن ماں راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر مجھے کیوں دَم کرتی رہتی ہے؟ اس سوال نے مجھے اس سارے معاملے کو انفرادی زاویے سے دیکھنے کی تحریک کی ہے اور میں آسمان کی سرخی کو اپنی ذات کے حوالے سے سوچنے لگتا ہوں۔

(۲)
 
’’رات دو بجے....عقبی دروازہ.....ٹھیک!‘‘
میں اس بے ربط مگر معنی خیز تحریر کو پڑھتا ہوں اور اس خوبصورت لڑکی کا سراپا مجھے اپنے پورے وجود میں خوشبو بکھیرتا محسوس ہوتاہے جو ایک عرصے سے میرے دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہے۔ میری ایک بہت ہی اچھی دوست نے مجھے کئی دفعہ اس خوبصورت لڑکی سے لاتعلقی کی نصیحت کی تھی۔ مگر میں نے ہمیشہ اس کی نصیحت کو نظرانداز کیا۔ اور آج جب اس خوبصورت لڑکی نے مجھے اپنے ہاں مدعو کیاہے تو میرے ذہن میں خودبخود گناہ کا تصوّر ابھرنے لگتاہے۔ ماں سے طبیعت کی خرابی کا بہانہ کرکے میں بیٹھک میں آکر بظاہر سوجاتاہوں۔
ا س وقت رات کے آٹھ بجے ہیں اور میں نے لیٹے ہی لیٹے دائیں طرف کروٹ بدل کر خیال ہی خیال میں اس خوبصورت لڑکی کو اپنے پہلو میں سلالیا ہے۔ میری سانسوں کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ اور عین اس وقت جب میں کلائمکس پر پہنچنے لگاہوں میں نے اس کا چہرا اپنے ہاتھوں میں تھام کر اس کے ہونٹوں کا بھرپور بوسہ لینا چاہا ہے.... مگر مجھے جیسے یکدم کرنٹ لگ گیاہے۔ میرے ہاتھوں میں جو چہرا ہے وہ ہو بہو میری بیٹی کا ہے۔ میری ننھی بچی.... جیسے ایک دم جوان ہو کر میرے ساتھ لیٹی ہو۔ میں خوف زدہ ہو کر بیٹھک سے نکل کر باہر سڑک پر آجاتا ہوں۔ اور کھلی ہوا میں لمبے لمبے سانس لینے لگتاہوں۔
کافی دیر بعد میں دوبارہ اندر آتاہوں۔نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور ہے۔ میں پھر بستر پر لیٹ جاتاہوں مگر خوف کے باعث اب بائیں کروٹ لیٹتاہوں۔ لیٹتے ہی وہ خوبصورت لڑکی پھر میرے پہلو میں آگئی ہے اور.....اور.... نہ چاہتے ہوئے بھی میں پھر اس کے جسم کو اپنی بانہوں میں سمیٹ کر اپنے پورے وجود میں سمونے لگتاہوں۔ اپنے سارے عمل کے دوران میں شعوری طورپر کوشش کرتاہوں کہ اس کا چہرہ نہ دیکھوں۔ مگر ....اس نے اپنے ہاتھوں میں میرا چہرہ تھام لیاہے میں قدرے جھجکتے ہوئے اس کی طرف دیکھتا ہوں۔ یہ چہرہ میری بیوی کا ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ میری بیوی ایک ماہ سے میکے گئی ہوئی ہے۔ اس کی عدم موجودگی کے باوجود اس کی موجودگی میں کوئی حرج نہیں۔ میں اس کے جسم کو اور بھینچ لیتاہوں۔ لیکن مجھے پھر کرنٹ لگتا ہے.... میں نے اپنے آپ کو دیکھا تو میری جگہ کوئی اور تھا۔
میں پھرخوفزدہ ہوکر سڑک پر نکل آتاہوں اور کھلی ہوا میں لمبے لمبے سانس لینے لگتا ہوں مجھے محسوس ہوتاہے کہ آسمان کی خونی سرخی دراصل میرے اس ہونے والے ریپ کی گواہ اور اس خوبصورت لڑکی کے بہنے والے خون کا ثبوت ہے۔ لیکن ہم دونوں میں اصل مجرم کون ہے؟
مری اس اچھی دوست نے ایک دفعہ جھلاکر مجھے کہا تھا’’آپ دونوں ایک دوسرے کے لئے مخلص نہیں ہیں صرف اپنے جذبات کی تسکین کے لئے ایک دوسرے سے فراڈکررہے ہیں‘‘..... لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے بڑے بڑے مخلص دوستوں کو بھی ذاتی مفاد کی خاطر انتہائی گھٹیا سطح پر اترتے دیکھا ہے خود میری اس اچھی دوست نے میرے ساتھ زبردست فراڈ کیاہے۔ ایسا فراڈ جو ابھی تک وہ خوبصورت لڑکی بھی میرے ساتھ نہیں کرسکی۔
**
عشق کے روایتی قصوں میں ایسے واقعات ضرور ملتے ہیں مگر رات کو کسی سے چوری چھپے ملنے جانا میری زندگی کا پہلا تجربہ ہے۔ گہری سیاہ رات میں پکڑے جانے کا کوئی خوف نہیں لیکن جب میں اس کے دروازے پر ہلکی سی دستک دینے لگتاہوں تو اچانک روشنی میں نہاجاتاہوں۔ مجھے لگتاہے سارا شہر میرے تعاقب میں نکل آیاہے اور میں رنگے ہاتھوں پکڑلیا گیاہوں۔ میں گھبراکرچاروں طرف دیکھتا ہوں۔ میرے چاروں طرف گھوراندھیرا ہے، پھر میں کس روشنی میں نہاگیاہوں؟ کہیں یہ مرے اندر کی روشنی تو نہیں؟.... مرے شجرے کی روشنی؟
دروازہ کھل گیاہے اور میں اپنے سوالوں کے جواب سوچے بغیر اندر داخل ہوگیاہوں۔ کمرے میں صرف ایک چارپائی اورایک کرسی پڑی ہے، لیکن ہم دونوں چارپائی پر ایک ساتھ بیٹھتے ہیں۔ اس نے اپنی کمر کابوجھ مرے اس بازو پر ڈال رکھاہے جو میں نے اس کی کمر میں حمائل کررکھاہے۔ گپ شپ کرتے ہوئے اچانک مجھے محسوس ہوتاہے کہ میری بیوی اور میری بیٹی دونوں میرے دائیں بائیں آن کھڑی ہیں۔ وہ دونوں مجھے میرے دونوں بازوؤں سے پکڑ لیتی ہیں، سامنے میری وہ اچھی دوست اپنا منہ دوسری طرف پھیرے کھڑی ہے۔ میں عین موقعہ پر پکڑ لئے جانے کی شرمندگی کے ساتھ باہر آنے لگتاہوں۔ وہ خوبصورت لڑکی مجھے حیرت سے دیکھتی ہے۔
واپس آکر میں ٹائم دیکھتاہوں۔ تین بج رہے ہیں۔ بستر پر لیٹتے ہی مجھے گہری نیند آجاتی ہے.....
ماں حسب معمول فجر کے وقت مجھے جگاتی ہے تو میں بمشکل آنکھیں کھول پاتا ہوں۔ ماں کے چہرے پرفکرمندی کے گہرے اثرات ہیں۔وہ بھرائی ہوئی آواز میں مجھے بتاتی ہے کہ آج آسمان پہلے سے بھی زیادہ سرخ ہے۔ میں کمرے سے باہر نکل کر آسمان کی طرف دیکھتا ہوں اور پھر حیرت سے ماں کا چہرہ تکنے لگتا ہوں۔
’’ماں!آج تو آسمان پر معمولی سرخی بھی نہیں ہے۔ بالکل صاف آسمان ہے‘‘
ماں مجھے تشویشناک نظروں سے دیکھتی ہے اور پھر غالباً مجھ پر دَم کرنے کے لئے کوئی آیت پڑھنے لگتی ہے....میں کمرے میں آکر بڑے آئینے کے سامنے اپنے بال درست کرنے لگتاہوں، بال درست کرتے ہوئے مجھے اپنی آنکھیں لال انگاروں کی طرح نظر آتی ہیں۔ مجھے لگتاہے آسمان کی ساری سرخی مری آنکھوں میں اتر آئی ہے۔ میں نے انفرادی زاویے سے آسمانی سرخی کا بھید پالیاہے.... ماں کمرے میں آکر مجھ پر پھونکیں مارتی ہے، مجھے لگتاہے وہ کہنا چاہتی ہے کہ مجھے تمہارے رات کے سارے عمل کا پتہ ہے لیکن پھر میرے شرمندہ ہونے کاخیال کرکے چپ چاپ لوٹ جاتی ہے۔ میں وضو کرنے کے لئے باہر آنے لگتاہوں تو ایک کتاب پر ایک بھڑ کو بیٹھا دیکھتاہوں.... ایک دوسری کتاب اٹھاکر میں نے اس بھڑپر دے ماری ہے اور اسے اس کے ڈنک سمیت ختم کردیاہے.... اس کے ساتھ ہی مجھے اپنی اس اچھی دوست کا خیال آجاتا ہے جس کی ایک زیادتی کے باعث میں اس سے ناراض ہوں۔
ممکن ہے وہ بھی اپنی زیادتی پر نادم ہو اور اس ندامت کا احساس آسمان کی ساری سرخی اس کی آنکھوں میں بھی بھردے.... ممکن ہے آج شام کو غروب آفتاب کے بعد مری طرح اسے بھی آسمان خون آلود نظرنہ آئے اور وہ بھی میری طرح انفرادی زاویے سے آسمان کی سرخی کا بھید جان لے.... اور ممکن ہے وہ بھی کسی بھڑ کو اس کے ڈنک سمیت ماردے۔
میں اس خوبصورت لڑکی کے بارے میں بھی کچھ سوچنا چاہتاہوں لیکن فی الحال میں طے کرتاہوں کہ آج ناشتے کے بعد تازہ اخبارکا مطالعہ نہیں کروں گا۔ قتل، اغوا، زنا، ایکسیڈنٹ کی خبریں تو روز کا معمول ہیں۔ آج میں ناشتے کے بعد اپنی اس اچھی دوست کا خط پڑھوں گا جس سے میں ناراض ہوں۔
وہی خط جسے پڑھتے وقت بھڑ نے میرے سینے پر ڈنک مارا تھا۔

***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen